مدینہ منورہ حرمت والی جگہ
مدینہ منورہ وہ حرمت والی جگہ ہے۔وہاں اونچی آواز سے بات تک کرنا منع ہے اور اتنی بے حرمتی کی۔ تم لوگ کیسے مسلمان ہو اور وہ رات رمضان کی طاق رات تھی جس میں تم لوگ پیارے آقا کے شہر میں ایسی فضول حرکت کر رہے ہو یعنی نعرے بازی۔جب لوگ طاق رات میں اللہ سے رحمتیں اور برکتیں مانگ رہے تھے راتوں کو قیام کرکے خدا سے اپنی بخشش طلب کر رہے تھے وہاں تم لوگوں کو یہ حرکت سوجھی بیشک اختلاف اپنی جگہ لیکن جگہ اور رات تو دیکھ لیتے ۔
مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے باقی لوگ محفوظ رہیں۔پیارے آقا ﷺ کے شہر میں تم نے پیارے آقا کی تعلیمات کا بھی لحاظ نہیں رکھا۔آج کل مسلمان جس پستی میں جارہے ہیں انہیں قرآن و سنت کی تعلیمات کو سیکھنے اور عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔کبھی مسجد اقصی کو پامال کرتے یہودی نظر آتے ہیں کبھی کوٸ کعبے کی حرمت کو پامال کرتے نظر آتا تو کوٸ مدینے کی گلیوں میں حرمت والے مہینے میں خود مسلمان اختلاف کی بنیاد پرنعرے بازی کرتا نظر آتا ہے۔ان کے نزدیک ادب، اخلاق، تقدس اور احترام محض افسانوی باتیں بن کر رہ گٸ ہیں ۔
ادب سیکھنا انتہاٸ ضرری ہے جس کو ہم پس پشت ڈال دیتے ہیں۔سیاست ایک بھاری ذمہ داری ہے اختلاف بے تہذیب کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ہم بے اخلاق کو طاق پہ سجا رکھا ہے۔
اگر کوٸ قانون اب نہیں آۓ گا تب بھی اوپر اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ہمہیں سیاسی طور پر بالغ ہونے کی اور تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔بداخلاقی میں اس قدر آگے بڑه گۓ کہ بدتہذیب اور بےادب ہوگۓ ۔ نعرے بازی اور شو بازی اللہ کے ہاں بےادبی میں شمار ہوتی ہے۔
خاموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچها
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
(اقبال)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَرْفَعُوٓا۟ أَصْوَٰتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ ٱلنَّبِىِّ وَلَا تَجْهَرُوا۟ لَهُۥ بِٱلْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَٰلُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو
Al-Hujurat 49:2
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد اور والدین سے بڑھ کر محبوب نہ بن جاؤں ۔‘‘
(An nasai:5018)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و توقير بعد از وفات بھی ویسی ہی ہے جیسے زندگی میں تھی۔ آپ کی قبر کے قریب آوازیں بلند کرنا نا پسندیدہ ہے، اور اس سے اعمال کے ضائع ہو جانے کا خدشہ ہے۔
(فتاوى الرملي الشافعي : 98/2)
چاہے نعرے سچ ہو چاہے ہ لوگ ڈیزرو کرتے ہو پر شدید دکھ اور تکلیف ہے دل رنجیدہ ہے دل میں عقیدت اور آنسو لۓ درود شریف کا نذرانہ پیارے نبی ﷺ کو پیش کرتے ہیں۔
پیارے نبیﷺ پر میری جان، مال،اولاد سب قربان۔ اللہ ہمارے دلوں میں نبی اور پاک جگہوں کی محبت اجاگر کرے۔آمین۔
ہانیہ احمر
Comments
Post a Comment